زمانے کی گردش نے انسان کیلئے ان گنت سہولیات اس کے قدموں میں ڈھیر کردی ہیں۔ نت نئی ایجادات نے اس کی زندگی کو خوابناک کردیا ہے۔ وہ آسائشیں جس کا انسان کبھی محض تصور ہی کرسکتا تھا آج اس کی محض انگلیوں کی اشارے کی تابع ہیں۔ بٹن دبایا اور سہولت حاضر بلکہ اب تو انسان اس سے ایک قدم اور آگے بڑھ گیا ہے اب اسے اٹھ کر جانے اور بٹن دبانے کی بھی ضرورت نہیں رہ گئی ہے۔ وہیں بستر پر لیٹے لیٹے یا کرسی پر بیٹھے بیٹھے اشارہ کیا اور کرامتیں ظاہر ہونی شروع ہوگئیں۔ یہ ریموٹ کنٹرول کا دور ہے۔ انگلیوں کے ہلکے سے اشارے سے پنکھے چل پڑے اور دروازے کا تالا کھل گیا۔ یہ انسانی زندگی کا پرآسائش دور ہے۔ اس کی کرشماتی سہولتوں کی معراج کادور ہے۔تاہم ان نعمتوں کا یہ محض ایک پہلو ہے۔ اس کا دوسرا پہلو اس سے بالکل مختلف ہے۔ اس کا یہ پہلو کرب ناک ہے۔ مادی آسائشوں نے اس کی روحانی مسرتیں اس سے چھین لی ہیں۔
مردوں کی طرح خواتین نے بھی ان آسائشوں سے پورا لطف اٹھایا ہے بلکہ دنیا کی بیشتر آسائشوں کا تعلق تو خاص انہی سے متعلق ہے۔ اس کا یہ پہلو کربناک ہے۔ مادی آسائشوں نے اس کی روحانی مسرتیں اس سے چھین لی ہیں۔
مردوں کی طرح خواتین نے بھی ان آسائشوں سے پورا لطف اٹھایا ہے بلکہ دنیا کی بیشتر آسائشوں کا تعلق تو خاص انہی سے متعلق ہے۔ دور جدید کی اکثر ایجادات مکانوں اور باورچی خانوں ہی سے منسلک ہیں جب سے خواتین نے ان آسائشوں سے فیض اٹھانا شروع کیا ہے‘ محنت ومشقت کے کام ان سے چھوٹ گئے ہیں۔ دوسری طرف گھر میں خادماؤں اور نوکرانیوں کی خدمت گزاری کی وجہ سے بھی ہماری خواتین کی جسمانی محنت کم سے کم تر ہوتی چلی جارہی ہے۔ خوش حال گھرانے یا کم آمدنی والے کنبے سب کے سب جدید سہولتوں اور خادماؤں کی سہولت سے مستفید ہورہے ہیں۔
چنانچہ عملی محنت کی عادت خواتین میں کم ہوتی جارہی ہے۔ آٹا گوندھنے‘ مصالحہ پیسنے‘ جھاڑو لگانے‘ کپڑے دھونے اور برتن چمکانے کی جو مشقت کبھی خواتین کا طرۂ امتیاز ہوتی تھی اب وہ غائب ہوتی جارہی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ خواتین میں بیماریاں کثرت سے پیدا ہورہی ہیں۔ وہ موٹی ہورہی ہیں۔ ان کا وزن بڑھ رہا ہے۔شکر کی شکایتیں جنم لے رہی ہیں۔ دل کے امراض حملہ آور ہورہے ہیں اور تھکن کم ہونے کی وجہ سے ان کی راتوں کی نیندیں غائب ہورہی ہیں۔ جدید خوشنما زندگی کا یہ دوسرا تاریک روپ ہے۔
عورتوں کے گھریلو کام کاج کا یہ نظام فطرت نے رکھا ہی اس لیے تھا کہ گھریلو طور پر وہ چوبیس گھنٹے محنت و مشقت میں مصروف رہیں اور ان کا دوران خون بہتر انداز سے جاری رہے۔ عام طور پر خواتین کو باہر کی دنیا سے اس طرح مطلب نہیں ہوتا جس طرح مردوں کا ہوتا ہے‘ اس لیے ان کیلئے چھوٹی موٹی بھاگ دوڑ ضروری تھی۔ اب یہ نظام الٹ گیا ہے۔ کہنا یہ چاہیے کہ تیزی سے الٹایا جارہا ہے۔ اس کے نتیجے میں غذا میں شامل ہونے والی چربی خون میں تحلیل نہیں ہورہی اور خواتین کو شکر اور بلڈپریشر کے مسائل درپیش ہیں۔ ظاہر ہے کہ جب جسمانی مشقت ہی نہیں ہوگی تو غذا کے یہ اجزاء بھی کم سے کم تحلیل ہوں گے۔سادہ سا اصول ہے کہ ہم اپنے جس عضو سے کم کام لیں گے اس کے اندر اتنی ہی طاقت کم ہوگی۔ ہمارا بایاں ہاتھ اسی لیے بے جان سا ہوتا ہے کہ ہم اس کا استعمال کم کرتے ہیں لیکن وہ افراد جو دائیں ہاتھ کی جگہ اپنے بائیں ہاتھ سے زیادہ کام لیتے ہیں ان کا بایاں ہاتھ دائیں ہاتھ سے زیادہ بوجھ اٹھالیتا ہے۔ کرکٹ کی دنیا میں کامیاب کھبے کھلاڑی اکثر و بیشتر ہمارے سامنے آتے رہتے ہیں۔
ایک توپرسہولت و پرتعیش اشیاء کا استعمال اور اس پر چھوٹے چھوٹے فاصلوں کیلئے کاروں اور کوچوں کا سفر انسان کیلئے غیر ضروری اجزاء کو نہ صرف جزوبدن نہیں بننے دیتا بلکہ ان کا جسم میں ذخیرہ کرتا رہتا ہے اور یہی ذخیرہ چربی کی صورت میں ہمارے لیے موٹاپے‘ امراض قلب‘ بلند فشار خون‘ ذیابیطس اور دیگر امراض کا باعث بنتا ہے۔ چنانچہ اسی مثال سے ہم اپنی صحت کی سنگینی کو پرکھ سکتے ہیں۔
بڑے گھرانوں کی خواتین میں کام نہ کرنے اور انہیں خادماؤں کے سپرد کرنے کی ایک وجہ اور بھی ہے یہ خواتین ان گھریلو کاموں کو اپنے لیے کسرشان سمجھتی ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ جھاڑو پونچا لگانا اور مصالحہ پیسنا ان کے وقار کے مطابق کام نہیں ہے۔ یہ تو نوکرانیوں اور خادماؤں کی ذمے داریاں ہیں۔ ان خواتین کاکام تو شاید لیٹے رہنا اور میگزین پڑھتے رہنا ہے۔ چنانچہ وہ یہ تمام کام اپنی ملازماؤں کے حوالے کردیتی ہیں اور حاصل شدہ فرصت کو وہ شاپنگ اور کمپیوٹر سے لطف اندوز ہونے میں صرف کرتی ہیں۔ دوسری طرف انہیں اپنی صحت کی بھی فکر دامن گیر رہتی ہے‘ اس لیے شام کے اوقات میں وہ جاگنگ کرتی ہیں۔ جاگنگ کرنا فی زمانہ اسٹیٹس کی علامت بن گیا ہے جبکہ گھریلو کام کرنا پسماندگی کی نشانی قرار پایا ہے۔
کرکٹ کے کھلاڑی بیٹسمین اگر یہ سوچ کر فیلڈنگ اور بیٹنگ کرنے سے انکار کردیں کہ یہ کام ان کی حیثیت کے منافی ہیں تو یہ احساس محض ان کی حماقت قرار پائے گا۔ فیلڈر اور بیٹسمین کہلائے ہی اس لیے جاتے ہیں کہ وہ عملی طور پر میدان میں گیندوں کے پیچھے بھاگ رہے ہوتے ہیں۔ چنانچہ اسی مثال پر قیاس کرکے خواتین کو بھی اپنے امور خانہ داری سے اجتناب نہیں برتنا چاہیے۔
اس ضمن میں ایک اور سادہ سی مشق ان کیلئے یہ بھی ہے کہ وہ دن بھر میں کم از کم دو دفعہ سیڑھیاں لازماً اترا چڑھا کریں۔ یہ عمل ان کی صحت کو بہتر کردے گا۔ اس کی پابندی سے انہیں اچھے نتائج دیکھنے کو ملیں گے۔گھریلو کام کاج کی عادت کم ہوتے رہنے کی وجہ سے بیماریاں ہمارے گھروں میں داخل ہوگئی ہیں۔ معالجوں نے ہمارے گھر دیکھ لیے ہیں۔ یادرکھیے! زائد چربی اور شکر ہماری صحت کے بڑے دشمن ہیں۔ ان کی تحلیل کا بہترین حل روز مرہ کی نجی مصروفیات ہیں۔ ہم فطرت سے جتنا دور ہوں گے اتنی ہی پریشانیاں اپنے دامن میں سمیٹیں گے۔اعدادو شمار کے مطابق اس وقت پاکستان میں 25سال کی عمر سے زیادہ عمر کے70 لاکھ افراد ذیابیطس کے مرض میںمبتلا ہیں اور 2025ء تک یہ تعداد بڑھ کر سوا لاکھ سے بھی زیادہ ہوجائے گی۔ چنانچہ اگر گھریلو مشقتوں میں مصروف ہونے کے باعث خواتین اس مرض سے خود کو دور رکھ سکتی ہیں تو یہ سودا مہنگا نہیں۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں